پیر، 19 اکتوبر، 2020

انسانی کردار کی تشکیل

خُدائے بزرگ و برتر نے اس جہانِ فانی میں حضرتِ انسان کو تخلیق کیا ہے اور ہر انسان کو یہاں اپنی زندگی کے "گِنے چُنے " دن گزار کے "ابدیت" کی طرف چلے جانا ہے۔ اس کائنات میں دورانِ زندگی ہر انسان کو اپنے اپنے حِصّے کا کردار ادا کرتے رہنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالٰی کے تخلیق کردہ اس نظامِ کائنات میں اچھائی و بُرائی ساتھ ساتھ رہتی ہے، نیکی و بدی کا ازل سے چولی دامن کا ساتھ ہے،جھوٹ و سچ دنیا مین ہر لمحہ موجود رہتے ہیں لیکن صُبح صُبح ہوتی ہے اور رات رات ہوتی ہے،اچھائی اپنا الگ سے مقام رکھتی ہے اور بُرائی الگ سے اپنا آپ منوانے کے لیے کوشاں و سرگرداں رہتی ہے،کُفر ہر ہر پہلو سے اس کوشش میں رہتا ہے کہ حق کو مٹا دیا جائے اور یزیدی قوتیں " ہر ہر لمحہ "حُسینی قوتوں " کے ساتھ نبرد آزما رہتی ہیں جبکہ حُسینی قوتیں اپنے مضبوط کردار اور "توکّلِ الٰہی " کی بدولت ازل سے انکو نیست و نابود کرتی آئی ہیں اور قیامت تک یزیدیت کو شکست و ریحت کا سامنا کرتے رہنا پڑے گا۔
حضرتِ انسان کا ہر ہر عمل اسکے "کردار " کی عکاسی کرتا ہے اور اللہ تعالٰی نے انسانی کردار کی تشکیل کی خاطر کئی ایک عوامل تخلیق کئے ہوئے ہیں لیکن اُن عوامل کے ساتھ ساتھ انسان کو اپنے کردارکی خود سے ہی تشکیل کرنے کی سعی و کوشش کرنا ہوتی ہے اور اُن اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہونا ہوتا ہے جو قواعد اسکے کردار کی تشکیل میں ازل سے بہترین انداز میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
نارمل حالات میں تمام انسان اچھے فیصلے کرتے ہیں ،بروقت مُعاملات کو سعتتلع کرتے ہیں اور خوبصورت انداز میں ہر قسم کے مُعاملہ کا بہادری سے فیصلہ کرتے ہیں لیکن مشکل حالات میں انسان کے کردار کی درست طریقے سے شناسائی ہوتی ہے کیونکہ انسان  کے اعلٰی کردار کی اصل شناخت مصیبت کے وقت ہی ہوا کرتی ہے کیونکہ مشکل کے وقت اکثر احباب اپنی خُو کو چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے کردار کی عظمتوں کو بُھلا دیا کرتے ہیں َسچ تو یہ ہے کہ اچھے کردار کے حامل افراد، مضبوط کردار کے مالک انسان دورِ حاضر میں ناپید ہو چکے ہیں اور ہمارے معاشرہ میں کچھ اس نوع کے افراد پائے جاتے ہیں کہ جن کے متعلق محترم علامہ اقبالؒ یوں فرماتے ہیں کہ:۔
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
مَن اپنا پُرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا
ہمارے معاشرے میں اکثر افراد کے مَن پاپی ہی رہتے ہیں، وہ اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت" کی عملی تصویر بنے رہتے ہیں، وہ جھوٹ کو اپنا اُوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے سچ بولنے کے اور سچ کے فوائد پر لمبے لمبے درس دینے کے شوقین ہوا کرتے ہیں، وہ سر تا پا کرپشن کی گہری گھاٹیوں میں بسیرا کیئے ہوئے کرپشن سے پاک معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت پر ہمہ وقت لیکچر جھاڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، وہ خود بددیانتی کے رسّیا ہوتے ہیں،خیانت کرنے کے خوگر ہوتے ہیں،بُغض پر عمل پیرا ہوتے ہیں،تعصّب کے پیروکار ہوتے ہیں،حسد کے بھنّور میں غوطہ زن ہوتے ہیں اور مذکورہ بُرائیوں کی پُرجوش انداز میں مخالفت بھی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں نیز معاشرے میں ان بُرائیوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جبکہ ہر ذی شعور انسان اس امر سے آشنائی رکھتا ہے کہ معاشرتی فلاح،سماجی بہتری، اخلاقی معراج،مذہبی ترقی اور معاشی بہبود کے حاصل کرنے کے لیے صرف باتیں نہیں بلکہ عمل، عمل اور عمل کی ضرورت ہوا کرتی ہے،گفتار کے غازیوں کی نہیں بلکہ کردار کے غازیوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے کیونکہ۔۔۔
کردار کے غازی جانتے ہیں کہ خُدائے بزرگ و برتر نے اپنے اس نظامِ کائنات میں کئی ایک sources انسانی کردار کی تشکیل کے لیے تخلیق کر رکھے ہیں۔ چاند و سورج کی تخلیق میں اور انکے ایک system کے تحت طلوع و غروب میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے اور کردار کی تشکیل میں بھی تسلسل کا پہلو اہم کردار ادا کرتا ہے 

بدھ، 14 اکتوبر، 2020

دائیں ہاتھ سے دیں تو بائیں کو خبر نہ ہو

اِس کائناتِ ارضی میں اللہ تعالٰی نے اپنی مخلوقات میں سب سے اعلٰی مقام سے حضرتِ انسان کونوازا ہے اور ہم انسانوں میں کئی ایک خوبیاں بھی تخلیق کی ہیں اور کچھ ایسی خصّلتیں بھی رکھ دی ہیں جو انسانی شخصیت و کردار کو متاثر کیا کرتی ہیں نیز اللہ تعالٰی نے ہمیں ایسی خصّلتوں پر قابو رکھنے کا حکم بھی دے رکھا ہے اور اگر ہم ان خصّلتوں پر "گرفت " رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر ہم انسانوں کی عظمتوں پر فرشتے بھی رشک کرتے ہیں۔ بقول الطاف حُسین حالی:۔


فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا

 

مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

وہ خصّلتیں ہمیں ہمارے معاشرے میں جا بجا ملا کرتی ہیں، کہیں ہمیں لالچ ایسی خصّلت ملتی ہے، کہیں حسد ملتا ہے، کہیں بد دیانتی ملا کرتی ہے، کہیں جھوٹ ایسی بد نُما خصّلت ملتی ہے، کہیں دھوکہ دہی کی عادت ملتی ہے اور کہیں "خود  نمائی " کی خصّلت ملا کرتی ہے۔

خود نمائی ایسی خصّلت کو اگر ہم  positively  اپناتے ہیں تو ہم یقینََا اس دنیا میں منفرد کردار کے مالک بن جایا کرتے ہیں، خود کو نمایاں کرنے کے لیے ہم دن رات جدوجہد میں مصروف ہو جایا کرتے ہیں، خود کو مُمتاز رکھنے کے لیے ہم اپنے جسم و جان کی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ، خود کو نمایاں مقام پر لانے کے لیے ہم اپنے معاشرے میں اعلٰی ترین کارنامے سر انجام دینے کی دُھن میں مگن رہتے ہیں اور اگر ہم اپنی خود نمائی کی اس خصّلت کو   negatively  اختیار کر لیتے ہیں تو پھر ہم اپنے معاشرے میں طرح طرح کی خامیاں پھیلانے کا سبب بنتے چلے جاتے ہیں، جھوٹ پر مبنی ماحول پیدا کرنے کا سبب بنتے چلے جاتے ہیں ، مُنافقت پر مبنی معاشرتی اقدار تشکیل کرتے چلے جاتے ہیں، پھر ہمارے معاشرے میں بے شمار ایسے افراد جنم لیتے چلے جاتے ہیں کہ جن کے ہر قول،فِعل، لین دین، چال،ڈھال میں صرف اور صرف نمائش ہی ملا کرتی ہے، انکے ہر عمل میں بناوٹ ملتی ہے، انکی گفتگو میں خود نمائی پائی جاتی ہے، وہ جب بھی، جونسا بھی عمل کرتے ہیں اسمیں خود نمائی کا عنصر نمایاں ملتا ہے اور اپنے خود نمائی کے جذبہ کی تسکین کی خاطر ایسے احباب "مذہب " کی تعلیمات کا بھی پاس نہیں کیا کرتے ہیں 

َ ایسے لوگ مذہب کا پرچار اپنی ہی ذات سے شروع کرتے ہیں اور اپنی ہی ذات پر ختم کرتے ہیں، اپنی ہی ذات کو مذہبی تعلیمات سے لگاؤ رکھنے والا انسان ثابت کرنے میں یدِ طولٰی رکھتے ہیں۔ ہمارے مُعاشرے میں کئی مساجد میں یہ لوگ نماز پڑھنے جاتے ہیں تو وہاں ایسی جگہ پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتے ہیں جہاں انکی شخصیت نمایاں نظر آئے اور ایسی مُسلّمہ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انکے قیام اور رکوع و سجود کے لیے جونسی جگہ مخصوص ہو چکی ہے وہاں کوئی دوسرا نمازی کھڑا ہونے کی جسارت بھی نہیں کر سکتا ہے، ایسے نمازی "ذکرِ خُداوندی " کرنے کے دوران بھی صرف خود نمائی کے جذبے کی "تسکین " کو پیشِ نظر رکھا کرتے ہیں،نوافل و تہجّد کی ادئیگی کر لیتے ہیں تو معاشرے کے دیگر افراد کے سامنے تذکرہ کرنا اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے ہیں۔

ا پنےخود نمائی کے جذبے کی تسکین کی خاطر ہمارے یہ بھائی اکثر ایسا اندازِ گفتگو اپنایا کرتے ہیں کہ میں نماز پڑھنے جا رہا تھا، میں نماز پڑھ کے مسجد سے نکلا، میں نے نماز سے پہلے سوچا، مجھے نماز پڑھنے کے بعد پتا چلا، جب میں نمازِ تہجّد کے لیے جاگا، میں تہجّد کے بعد سویا اور مجھے تہجّد کے لیے جاگنا ہے حا لانکہ نمازِ تہجّد میں ہم سب  اہلِ ایمان اپنے خالقِ حقیقی کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنے  دلوں کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں،گڑگڑاتے ہوئے اپنے چھوٹے چھوٹے اور بڑےبڑے سر زد ہونے والے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اپنے مُسلمان بھائیوں کے ساتھ ہاتھوں یا زبان سے کی گئی زیادتیوں کی تلافی کے لیے دُعا کرتے ہیں  اور اپنے خالق و مالک کی خوشنودی و رضا طلب کرتے ہیں۔

ہم میں سے اکثر صدقات کی ادائیگی میں بھی اِسی نمائشی پہلو کو پیشِ نظر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے کسی بھائی، کسی عزیز، کسی رشتہ دار، کسی دوست یا کسی آشنا انسان کی معاونت کرتے ہیں تو ہر شخص سے اس معاونت کا چرچا کرتے ہیں اور ایسے گداگروں کو صدقہ و خیرات دیتے ہیں جو پیشہ ور ہوا کرتے ہیں، وہ پیشہ ور فقیر ایسے" ریا کاروں "کو معاشرے کے دیگر افراد میں سخی، پارسا، غریبوں کے حامی، یتیموں کے آسرا اور ضرورت مندوں کے خیر خواہ کے طور پر مشہور کر دیتے ہیں۔ اس طرح دُکھی انسانیت کی مدد کرنے سے ہمارے خود کو نمایاں رکھنے کے جذبے کی تسکین تو ہو جایا کرتی ہے لیکن ہماری نیّتوں اور دلوں کے حال جاننے والے خالق و مالک کے ہاں ایسے عمل کا کوئی صلہ نہیں ہےکیونکہ اللہ تعالٰی نے صدقات کی ادائیگی کے لیے "سفید پوش " انسانوں کا ذکر کیا ہے جو کسی سے سوال نہیں کرتے اور ہم انکو انکے چہروں سے پہچان لیا کرتے ہیں 

ہم سب کے آقا حضرت مُحَمَّد ﷺ نے اپنے صحابہِ اکرام رضی اللہ تعالٰی عنھا سے  فرمایا کہ جب اللہ تعالٰی نے اپنے کارخانہِ قدرت کو تخلیق کیا تو یہاں تین حصّے پانی تھا اور صرف ایک حصّہ خشک زمین تھی اور وہ خشک زمین کا حصّہ پانی میں کبھی اِدھر کبھی اُدھر تیرتا ہی رہتا تھا۔اللہ تعالٰی نے اس زمین کو ٹھرانے کے لیے طاقتور پہاڑوں کو میخوں کی صورت میں گاڑ دیا جو زمین کو ٹھرانے کا سبب بنے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے صحابہِ اکرام رضی اللہ تعالٰی عنھا سے فرمایا کہ"میں آپ سب کو اِن پہاڑوں سے بھی مضبوط و طاقتور نیکی بتاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ اپنے دائیں ہاتھ سے صدقہ دیں تو آپ کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہونے پائے" 

خُدائے بزرگ و برتر سے دُعا ہے کہ وہ پاک ذات ہم سب"اہلِ ایمان" کو اپنے اعمالِ صالح کی ادائیگی کے لیے ُ"خُدائی احکامات" اور آپ ﷺ کے "اُسوہِ حسنہ" کی تقلید کرنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین! ثُم آمین !

اتوار، 4 اکتوبر، 2020

ہماری صحت کا راز


خُدائے بزرگ و برتر نے حضرتِ انسان کو اس کائنات کی تمام مخلوقات سے زیادہ خوبصورت انداز میں تخلیق کیا ہے اور
 انسانی جسم کی ساخت میں نہایت ہی مناسب دلکشی،بناوٹ،توازن و تناسب کو maintain رکھتے ہوئے  اعلٰی تخلیق میں مُجسّم کیا ہے۔

اس مُسلّمہ حقیقت سے ہم انکار نہیں کر سکتے کہ ہمارا جسم ہمارے لیے خُدائے بزرگ و برتر کی عطا کردہ عظیم ترین نعمت ہے اور ہم بنی نوع انسانوں پرہمارے  جسم اور نفس سے مُتعلق کئی ایک حقوق واجب الاادا ہوا کرتے ہیں۔

خُدائے بزرگ و برتر نے ہم انسانوں کو دُنیائے جہاں کے مناظر سے لُطف اندوز ہونے کے لیے ہماری آنکھوں کو بے مثل بینائی سے نوازا،اس حیاتِ ناپائیدار کی سختیوں،مُصیبتوں اور آزمائیشوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے عقلی صلاحیتوں سے سرفراز کیا،زندگی کے مسائل پر آہنی گرفت حاصل کرنے کے لیے مضبوط ہاتھوں اور بازؤوں کو عنائت کیا اور ہماری حیاتِ مُستعار میں دور و نزدیک کے فاصلوں کو طے کرنے کے لیے ہمیں ٹانگیں اور پاؤں عطا کیے۔

ہم انسان خُدا تعالٰی کی عطا کی ہوئی ان تمام مُجسّم نعمتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کے تمام مسائل کو حل بھی کرتے ہیں،زندگی کی تمام مشکلات کا سامنا بھی کرتے ہیں،زندگی کے تمام تعلقات بھی نبھاتے ہیں،زندگی کے تمام رشتوں کے  ساتھ شانہ بشانہ چلتے بھی ہیں،اپنے مُعاشی ٹارگٹ بھی حاصل کرتے ہیں،تمام تعلیمی مراحل بھی پائیہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں،تمام مُعاشرتی و سماجی بندھنوں کو بھی پروان چڑھانے میں کوشاں و سرگرداں رہتے ہیں اور اپنے دلوں میں جاگزین اکثر آرزؤں اور تمنّاؤں کو پورا کرنے کے لیے اپنے جسم و جان کی تمام تر توانائیاں بروئے کار لانے کے جتن بھی کرتے ہیں لیکن یہ مُسلّمہ حقیقت ہم سب کے لیے افسوسناک ہے کہ ہم میں سے اکثر بنی نوع انسان اپنے جسم و جان کے حقوق کو ادا کرنے میں یکسر ناکام رہتے ہیں اور پھر ہمارے جسم مُختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان بیماریوں میں کچھ تو ایسی بیماریاں ہوتی ہیں جو قلیل مُدّت کے لیے ہمارے لیے پریشانی کا سبب بنا کرتی ہیں جبکہ کچھ بیماریاں اس قدر خطرناک ہوا کرتی ہیں کہ جن سے مُتعلق شاعر نے کیا خُوب کہا ہے کہ:۔

غُلام فریدا اے رونا اوہدوں مُک سِیں

  جَد بَھجّیاں کَفن دیاں تنیاں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو ہم انسانوں کو زندہ درگور کر دینے کی وجہ بن جایا کرتی ہیں، ہماری اپنے جسم و جان کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کے سبب ہم اکثر ایسی بیماریوں کا شکار ہو جایا کرتے ہیں جن سے مُتعلق جب ہم سوچتے ہیں تو ہمارے رونگٹھے کھڑے ہو جایا کرتے ہیں جبکہ ہم اس امر پر غور و فکر کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ہمارا جسم خُدائے بزرگ و برتر کی عطا کردہ بہترین نعمت ہے اور خُدائے عزّوجل نے اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا حکم دے رکھا ہے اور خُدائی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا بہترین انداز کچھ یوں ہے کہ ہم ان نعمتوں کی حفاظت کریں

خُدائے بزرگ و برتر نے ہمیں صرف خوبصورت جسم و جان سے نوازا ہی نہیں بلکہ اس پاک ذات نے ہم سب کے محبوب آقا حضرت مُحَمَّد ﷺ کی وساطت سے ایسے قواعد و ضوابط بھی عطا کر دیئے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہو کر ہم سب انسان اپنے جسم و جان کی حفاظت بھی کر سکتے ہیں نیز اِسے صحت مند بھی رکھ سکتے ہیں لیکن افسوس اس امر پر ہوتا ہے کہ ہم میں سے اکثر مُسلمان احباب مذہبی تعلیمات سے بے خبری کے سبب ان احکامات پر عمل پیرا نہیں ہو پاتے جو صحت کے ضامن ہوا کرتے ہیں۔

ایک مرتبہ یونانی مُسلمان حکیم سے ایک غیر مُسلمٗ "ہندو" حکیم نے آپ ﷺ کی مکمل کی گئی تعلیماتِ اسلام سے مُتعلق یہ کہا کہ آپ ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات میں "انسانی زندگی" کے بے شمار پہلوؤں کی how know کو بنانے اور سنوارنے کی تفصیلات ملتی ہیں لیکن انسانی صحت کو maintain  رکھنے کے لیے نیز بیماریوں سے بچاؤ اور انکے علاج سے مُتعلق کچھ واضع تعلیمات میسّر نہیں ہیں تو اُس مُسلمان حکیم نے اپنے مخصوص انداز میں ہمارے آقا حضرت مُحَمَّد ﷺ کی بتائی گئی تعلیمات کا ذکر کیا تو وہ ہندو حکیم طِب کے اصولوں کے مُطابق بتائے گئے قواعد و ضوابط سے مُتعلق سُن کر حیران ہوا اور مُسلمان ہو گیا۔

اُس یونانی مُسلمان حکیم نے اُسے کہا کہ ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ہمیں حکم دے رکھا ہے کہ آگ کے قریب مت سوؤاور رات کو درخت کے نیچے مت سوؤ کیونکہ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم آکسیجن کی بجائے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس inhale کر رہے ہوتے ہیں جو ہماری صحت کے لیے زہرِ قاتل ہوا کرتی ہے اور اپنے دستر خوان کو سبز رکھنے کا حکم بھی ہم تمام بنی نوع انسان کے لیے کچھ یوں ہے کہ اپنے دستر خوان کو "سبز " رکھو جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے کھانے میں سبزیوں، پھل و ترکاری کا استعمال زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیے ہمیں اس حقیقت سے آشنا رہنا چاہیے کہ ہمارا جسم مٹی سے تخلیق کیا گیا ہے اور اسی مٹی میں اُگائی جانے والی سبزیاں اور پھل ہماری صحت کی بحالی اور بیماریوں سے بچاؤ کا سبب ہیں پھر آپ ﷺ  نے ہم سب انسانوں کو یہ تعلیم بھی دے رکھی ہے کہ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانا کھایا کرو پھر ہمیں کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کا حکم دیا گیا ہے، کھانا کھانے کے بعد بھی ہاتھ دھونے اور کُلی کرکے اپنے مُنہ سے خوراک کے اجزا صاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے، دانتوں کی صفائی کا آپ ﷺ نے یوں فرمایا ہے کہ " اگر میری اُمت پر ناگوار نہ گزرتا تو میں ہر نماز سے پہلے مِسواک کرنے کا حکم دے دیتا۔"

ہم اس مُسلّمہ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ کُرّہِ ارض پر ہم انسانوں کی جسمانی صحت، ذہنی صحت، روحانی صحت، مُعاشرتی فلاح، مُعاشی استحکام، سماجی بہبود، دُنیاوی فلاح اور اُخروی نجات کا راز صرف اور صرف اللہ تعالٰی اور ہم سب کے محبوب حضرت مُحَمَّد ﷺ کے ذریعے پہنچائی گئی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہی پوشیدہ ہے۔ فی امانِ اللہ

بدھ، 30 ستمبر، 2020

نفرتیں نہیں مُحبتّیں بکھیریں



 اِس کائناتِ فانی میں ہمیں دورِ حاضر میں ہر طرف نفرت کا دور دورہ مل رہا ہے اور دلوں میں نفرتوں اور کدورتوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ آج کا انسان اپنوں سے نفرت کر رہا ہے، بیگانوں سے نفرت کر رہا ہے، چھوٹوں سے نفرت کر رہا ہے اور بڑوں سے نفرت کر رہا ہے حالانکہ ہماری مُختصر سی حیاتِ ناپائیدار میں ہمارے پاس اتنا مُختصر دورانیہ ہے کہ خُدائے بزرگ و برتر کی تخلیق کردہ مخلوق میں چاہتیں بانٹنے، مُحبتّیں تقسیم کرنے، میٹھے بول بولنے، اعلٰی اخلاقیات کا مُظاہرہ کرنے اور بیگانوں کو اپنا بنانے کے لیے سِرے سے کوئی لمحہ بچتا ہی نہیں ہے

اللہ تعالٰی نے اس کائنات کو اور اس کائنات کے ہر ہر ذرّے کو لفظِ "کُن " سے تخلیق کیا لیکن حضرتِ انسان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا۔اب چاہیے تو یہ تھا کہ ہم خُدا تعالٰی کی صفتِ رحیمی کا احساس کرتے اور دیگر انسانوں پر رحم کرتے،اللہ کی صفتِ کریمی کو سامنے رکھتے اور دیگر انسانوں کے ساتھ رحم و کرم والا رویّہ اپناتے اور وہ پاک ذات جو ستّر ماؤں سے زیادہ چاہتی ہے اسکی عطا کردہ چاہتوں کو اس مُقّدس ذات کی تخلیق کردہ مَخلُوقات میں بانٹتے چلے جاتے اور اپنے خالق و مالک کی صفات کے مظہر کا بہترین نمونہ بن جاتے لیکن مُعاملہ یکسر اُلٹ ہے کہ ہم میں سےاکثر احباب حق کو چھوڑ کر، سچائی کو پسِ پُشت ڈال کر، حقیقتِ ازلی و ابدی سے مُنہ مُوڑ کر نفرتیں پھیلانے کے رسّیا ہوچکے ہیں حالانکہ نفرت ایک "بیمار جذبہ" ہوتا ہے جو ہم انسانوں کو بھی بیمار کر دیتا ہے، یہ ایک ایسا بیمار جذبہ ہے جو ہمارے ذہنوں کو بیمار کر دیتا ہے ،ہمارے ذہن میں مخلوقِ خُدا کی بھلائی کے جذبے کو ختم کردیتا ہے، بھائی چارے کی سوچ کو مفلوج کر دیتا، نیز عدل و انصاف کو قائم کرنے کی planning کو ملیا میٹ کر دیتا ہے علاوہ ازیں ہمارا بیمار ذہن مخلوقِ خُدا کے خلاف مُسلسل سازشوں میں مصروف رہتا ہے، ہماری سوچیں منفی سمتوں میں رواں دواں رہتی ہیں ہماری روحیں اِسی بیمار جذبہ کے سبب مُختلف خامیوں، کوتاہیوں اور نغزشوں میں اُلجھی رہتی ہیں، ہم دوسروں کی چُغلی و بخیلی میں قیمتی ترین "متاعِ وقت" کو ضائع کرتے رہتے ہیں ہماری روحوں کی پاکیزگی آلودگی کا شکار ہوتی جا رہی ہے بنا بریں ہمارے جسم اسی بیمار جذبہ کی وجہ سے طرح طرح کی نہ سمجھ آسکنے والی بیماریوں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

مخلوقِ خُدا سے نفرت کرنے والے انسان اکثر و بیشتر خوفزدہ رہتے ہیں، وہ ایسے احباب ہوتے ہیں جو دلی طور پر، جسمانی طور پر اور روحانی طور پر کمزور ہوتے ہیں، احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور اُنکا "احساسِ کمتری" اکثر اوقات "احساسِ برتری" کا روپ دھار لیتا ہے اور وہ اپنے اس رذیل "احساسِ برتری" کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے ہی ایسے انسانوں کے ساتھ ظلم و ستم کرنا شروع کر دیتے ہیں، اُن سے ناانصافی سے پیش آتے ہیں، اُنکے حقوق غصب کرنا شروع کر دیتے ہیں، اُنکے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور اپنی نفرت کے جذبے کو پروان چڑھاتے چلے جاتے ییں۔

وہ نفرت ایسے بد صورت جذبے کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے گردا گرد مُعاشرہ میں طرح طرح کی بد صورتیاں بکھیرتے چلے جاتے ہیں اور مُعاشرتی آلودگی میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں درحقیقت ایسے احباب حق سے مُنہ موڑ چُکے ہوتے ہیں حالانکہ انہیں اس حقیقت کا شعور ہونا چاہیے کہ "حق" مروّت کا، سچائی کا، خلوص کا چاہت کا، مُحبّت کا، شفقت کا، بھائی چارے کا، مُساوات کا، انصاف کا، سراسر رحمت کا، کرم کا، حلیمی کا اور کریمی کا نام ہے جبکہ ہمارے یہ احباب مذکورہ جذبوں سے عاری ہوتے ہیں، وہ اس حقیقت سے بھی بے خبر رہتے ہیں کہ اُنکے پاس تمام نعمتوں کو عطا کرنے والی پاک ذات نے تو اُنہیں دیگر افرادِ مُعاشرہ سے پیار کرنا ہی سکھایا ہے جبکہ وہ اپنی اناؤں کے بُتّوں کے پُجاری بن کر اپنی جُھوٹی اناؤں کی تسکین کی خاطر نفرتیں پھیلاتے چلے جاتے ہیں اِن نفرتوں کے حِصار سے نکلنا گوارا نہیں کرتے اور اپنی نفرتوں کی بھینٹ چڑھانے کے دوران کسی "فردِ واحد " کی چھوٹی سی خطا بھی مُعاف نہیں کرتے حالانکہ مُحترم واصف علی واصفؒ کا پیغام تو کچھ یوں ہے کہ:۔

"اگر ہم اس دُنیا میں دوسروں سے مُعافی مانگنا اور مُعاف کرنا سیکھ جائیں تو یہ دُنیا جنّت بن جائے"

نفرت کرنے والے انسان اپنے قابلِ نفرت جذبے کے ہاتھوں مجبور ہو کر نہ تو کسی کو مُعاف کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور نہ ہی اُنکی طبیعت اپنے ہی قصورپر کسی سے مُعافی مانگنے کی طرف راغب ہوتی ہے۔

وہ اِس کائناتِ ارضی میں نفرت کے بیج بوتے چلے جاتے ہیں، تعصّب کی پنیری اُگاتے چلے جاتے ہیں، کینہ پروری کے پودے اُگاتے چلے جاتے ہیں پھر ان پودوں کومُنافقت سے لبریز فضاؤں میں پروان چڑھاتے ہی چلے جاتے ہیں اور خُدائے بزرگ و برتر کی تخلیق کردہ کائنات کو "جنّت نظیر" بنانے کی بجائے"جہنم کے گڑھوں" میں تبدیل کرتے چلے جاتے ہیں، وہ اس قبیح جذبے کے ہاتھوں سر تا پا مجبور ہو کر اپنی مذہبی تاریح کی اس حقیقت کو بھی پسِ پُشت ڈال دیتے ہیں کہ ہم مُسلمانوں کے آقا حضرت مُحَمَّد ﷺ کو خُدائے بزرگ و برتر نے اِس دُنیا کو "جنّت نظیر " بنانے کے لیے تخلیق کیا تھا اور ہم اپنی اس دُنیا کو آپ ﷺ کے اُمّتی ہونے کے باوجود جہنم بنانے کے لیے کیوں کوشاں و سرگرداں ہیں



ہفتہ، 26 ستمبر، 2020

پاکستان کا مطلب کیا ؟ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہِ


وطنِ عزیز کو جس پہلو سے بھی دیکھیں گے تو وطنِ عزیز "عزیز " ہی ہوتا ہے 

کوئی وطن ایسا نہیں ہوتا جو وطن کے تمام مَحاسن سے لبریز نہ ہو، جہاں ہر سُو بنی نوع انسان کی اُمنگیں پوری نہ ہوتی ہوں، جہاں عام آدمیوں کو انصاف نہ ملتا ہو، جہاں بھائی چارے کی فضا نہ ہو، جہاں ہمدردی کے جذبات کی فراوانی نہ ہو، جہاں امانت و دیانت کا ماحول نہ ملتا ہو، جہاں انسانوں کی آپس میں چاہتیں نہ ہوں،جہاں زندگی میں آسانیاں نہ ہوں اور جہاں زندگی ہی زندگی ہو درندگی نہ ہو۔ 

ہمارے وطنِ عزیز کی history ہمیں آگاہی دیتی ہے کہ حصولِ پاکستان کی خاطر ہمارے آباؤاجداد نے شب و روز محنت کی، بے شمار قربانیاں دیں، اپنے خاندانوں کو بےیارومددگار چھوڑا، اپنی اِملاک وکاروباروں کو خیرباد کہ دیا اور یہ سب قربانیاں صِرف اور صِرف اس لیے دیں کہ اپنی آئندہ نسلوں کی خاطر الگ سے "وطنِ عزیز " حاصل کیا جائے اور بلا شُبہ پاکستان کا حصول اسی وجہ سے مُمکن ہوا کہ ہمارے آباؤاجداد کی نیتّوں میں "خلوص" تھا۔ 

عزیز قارئین! جب نیتّوں میں خلوص ہوتا ہے تو خُدائے بزرگ و برتر ہمارے تمام کاموں میں آسانیاں پیدا کرتے چلے جاتے ہیں، تیزی سے اور حیران کُن انداز میں ایسے ایسے شاندار اسباب بنتے چلے جاتے ہیں کہ ہماری منزلیں قریب سے قریب تر ہوتی چلی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے صِرف 7 سال کے قلیل عرصہ میں اپنا الگ وطن "پاکستان " حاصل کر لیا۔

اگر ہمارے بزرگوں نے الگ وطن حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دیں تو اسمیں اُنکے سامنے سب سے بڑا مقصد یہ نہیں تھا کہ الگ سے " خطہِّ زمین " حاصل کیا جائے بلکہ اُن کا مقصد یہ تھا کہ مُسلمانوں کے لیے ایک ایسا وطن حاصل کیا جائے جہاں وہ اپنے بنائے ہوئے ضوابط پر عمل نہ کریں اور نہ ہی مُستعار لیے ہوئے نظام ہائے زندگی پر عمل پیرا ہوں بلکہ وہ خُدائے بزرگ و برتر کے بتائے ہوئے قواعد و ضوابط پر عمل کریں اور اِنہی اصولوں کے مُطابق اپنی حیاتِ ناپائیدار کو بسر کریں۔ 

اُنکے لیے اُنکا وطن ایسا ہو جہاں اُنکو انصاف ملے، رواداری پر مبنی ماحول ملے، اُنکی نسلیں بھائی چارے کی فِضا میں نشو ونما پائیں ، اُنہیں حضرت عُمر رضی اللہ تعالٰی عنہُ جیسا عدل میّسر ہو، حضرت عُثمان  رضی اللہ تعالٰی عَنہُ   ایسی سخاوتیں کرنے کے عادی مومن بھائی ملیں ، اُنکو چار سُو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عَنہُ ایسی بہادری و ہمت رکھنے والی شخصیات سے پالا پڑے اور اُنکو اپنے گردا گرد ایسا ماحول ملے جہاں کوئی طاقتور کسی کمزور پر ظُلم نہ کرے ، کوئی تاجر اپنے صارف سے ناجائز قیمت وصول نہ کرے ،جہاں کوئی بہن یا بیٹی اپنی پسند کی شادی کرنے کے بعد خود کُشی کرنے پر مجبور نہ ہو ، جہاں کسی بیٹی یا بہن کی عزّت و ناموس داغ دار نہ ہو ، جہاں کوئی بھی ماں اپنے بچوں کی بھوک کے سبب خود کشی کرنے پر مجبور نہ ہو ، جہاں ہر خاص و عام کو علاج کی تمام تر سہولتیں میسّر ہوں۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ جہاں عوام کے لیے حُکمران نہ ہوں بلکہ راہنما ہوں جو اپنی قوم کی زندگیوں میں آسانیاں بانٹیں، اُنکی خاطر ترقی کی راہیں کُشادہ کریں، اُنکی غُربت کو ختم کریں، اُنکی بیماریوں کے علاج کا بندوبست کریں،اُنکو مُلازمتوں سے نوازیں، عوام کا دُکھ راہنماؤں کا دُکھ ہو، اُنکی تکالیف راہنماؤں کی محرومیاں بن جائیں اور جہاں عوام بھی اپنے راہنماؤں کے سچ کو سچ ہی کہیں،اُنکے جُھوٹ کو جُھوٹ ہی کہیں، اُنکی خدمات کو خدمات ہی جانیں،اُنکی قربانیوں کو بھی تسلیم کریں، اُنکے ایک اشارے پر وطن کی خاطر اپنی جان تک قربان کرنے سے گریز نہ کریں اور اپنے راہنماؤں کی راہنمائی میں اُسی مقصد کے حصول کے لیے جُہدِ مُسلسل میں مصروف رہیں جس مقصد کی خاطر وطنِ عزیز حاصل کیا گیا تھا کیونکہ۔۔۔

جو قومیں اپنے مقاصد کو بُھلا دیتی ہیں وہ اکثر بگاڑ کا شکار ہی رہتی ہیں اور وطنِ عزیز میں ایسا وقت آن پہنچا ہے کہ ہمارے حُکمران ہمارے راہنما بن جائیں اور پوری قوم کو پھر سے وہی اعلٰی مقصدِ تخلیقِ پاکستان ازبر کروا دیں جس مقصد کا اظہار میرے بہت ہی پیارے اُستادِ مُحترم جناب اصغر سودائیؔ صاحب نے تحریکِ پاکستان کے دوران تمام مُسلمان قوم کے بچے بچے کی زبان سے کروا دیا تھا کہ:۔

پاکستان کا مطلب کیا ؟

 لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہِ 


جب ہم سب پاکستانی مِن حیثُ القوم مذکورہ مقصدِ تخلیقِ پاکستان کو شعوری طور پہ سمجھ جائیں گے تو ہم یقینََا یقینََا اپنے باقیماندہ مقاصدِ زندگی بھی بڑی آسانی سے حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں گے کیونکہ ایسی صورتِ احوال میں ہمیں اس قسم کا شعور حاصل ہو جائے گا کہ جس خُدائے بزرگ و برتر نے ہمیں وطنِ عزیز عطا فرمایا ہے اس نے صرف ہم مُسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کو قرآنی تعلیمات کی صورت میں خیرِ کثیر عطا فرمائی ہے اور ان قرآنی تعلیمات کی شکل میں وہ تمام قوائد و ضوابط عنائت کر دیے اور اپنے پاک محبوب حضرت مُحَمَّد ﷺ کے ذریعے "عملی نمونہ " بھی بنا کرقیامت تک ہم انسانوں کے لیے محفوظ کر دیا ہے کہ جن پر عمل کرکے ہم نہ صرف اس مادّی دنیا میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ہمیں اُخروی نجات کی اُمید بھی بندھ جاتی ہے۔ فی امانِ اللہ

منگل، 22 ستمبر، 2020

پاکستان کے مسائل اور پاکستانی Common man

 وطنِ عزیز پاکستان ہمارے آباؤ اجداد نے بے شمار قربانیاں دے کر حاصل کیا اور اِس مقصد کے لیے حاصل کیا کہ انگریزوں اور ہندوؤں کے ظلم و ستم سے نجات مل سکے،اُنکی تنگ نظری سے بچا جا سکے،اُنکی ناانصافی سے پناہ مل سکے،اُنکی اقربا پروری سے پناہ مل سکے، اُنکے جبّر و استبداد سے چھٹکارا مل سکے اور اُنکی شاطّرانہ چالوں سے بچاؤ کے لیے ایک ایسا خطّہِ زمین حاصل کر لیا جائے جہاں ہر طرح کی آزادی ہو، جہاں آزاد معاشی ماحول ملے، جہاں آزاد تعلیمی ماحول ملے، جہاں آزاد معاشرتی ماحول ملے، جہاں آزاد سماج کی رونقیں میّسر ہوں،جہاں آزاد سیاسی ماحول کی فضائیں ملیں، جہاں آزاد مذہبی ماحول ہر سُو  دستیاب ہو، جہاں مساوات ملے، انصاف ملے اور عدل کا بول بالا ہو لیکن۔۔۔

وطنِ عزیز کو حاصل کیے ہوۓ 73 سال ہو چکے اور یہاں بسنے والے عوام کے لیے زندگی آج بھی غیر مُستحکم ہے، عام آدمی کو torch کرنے کے لیے کئی طرح کے حربے استعمال کیئے جا رہے ہیں، ہماری "نسلِ نو" کو مدارس میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کا مطلب پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ہے لیکن ہم میں سے "اکثر" اس پاک وطن میں حیاتِ ناپائیدار بسر کرنے والے مُختلف آلودگیوں کا شکار ہیں، ہم میں سے کئی ایک اپنی مجلسوں کو آلودہ کر رہے ہیں، اپنے دفاتر میں آلودگی پھیلا رہے ہیں، اپنے مُعاشرتی نظام کو آلودہ کر رہے ہیں، اپنے عدالتی نظام کو آلودہ کر رہے ہیں نیز اپنے تعلیمی نظام میں طرح طرح کی آلودگی پھیلا رہے ہیں

پاک وطن میں زندگی بسر کرنے والے اکثر احباب مسائل کو حل کرنے کی بجائے پاکستان کو مسائلستان کے طور پر مُتعارف کروانے پر مُصِّر ہیں، یہاں کے مسائل کا تذکرہ ہر کوئی اپنے انداز میں کر رہا ہے، کسی شادی ہال میں چلے جائیں وہاں پاکستان کے مسائل کا ذکر جوش و خروش سے ہوتا ہے،کسی رسمِ دسواں کو attend کر لیں تو وہاں پاکستان کے مسائل کے لَتّے لیے جاتے ہیں، کہیں تیمارداری کے لیے چلے جائیں تو تیمارداری سے زیادہ پاکستان کے مسائل کا ہی ذکر چِھڑ جاتا ہے، کہیں تعزیّت کے لیے چلے جائیں تو وہاں بھی وطنِ عزیز"پاکستان" کے مسائل سے مُتعلق بحث و تمخیص شروع ہو جایا کرتی ہے۔

کسی صحافی سے ملیں تو وہ اپنے مخصوص انداز میں پاکستان کے مسائل سے مُتعلق دلائل دے گا، کسی اینکر پرسن کو سُن لیں تو وہ بھی وطنِ عزیز میں موجود مسائل کا مُدلّل تذکرہ کرے گا، ہمارے محترم اساتذہ سے ملیں تو وہ نہایت مہارت سے پاکستان کے مسائل پر روشنی ڈالیں گے، اپنے وطن کے سیاسی کارکنوں سے ملاقات کر لیں تو وہ بھی بڑے خوبصورت پیرائے میں پاکستان کے مسائل بیان کریں گےپھر  حکومتوں میں اپوزیشن کے بنچوں پر براجمان ہمارے عالی دماغ راہنما اپنے مخصوص style   میں پیارے وطن کے مسائل پر خون کے آنسو روتے ہوئے ملیں گے اور ہمارے بر سرِ اقتدار راہنما بھی ہمیں وطنِ عزیز میں موجود بے شمار دلوں کو دہلا دینے والے مسائل و مُعاملات کا پرچار کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔

وطنِ عزیز میں کچھ ایسا ماحول پیدا ہو چکا ہے کہ مختلف چینلز پر، سوشل میڈیا پر، اخبارات میں پاکستان میں ہر روز جنم لینے والے مسائل کا تزکرہ ہی عام آدمی کی tension بڑھانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

اسے کہیں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں پر مظالم کی داستانوں کا پتا چلتا ہے، کہیں اس وطن کی ماؤں و بیٹیوں پر ستم ڈھانے کے واقعات کی خبریں ملتی ہیں، کہیں کرپشن کے بڑے بڑے سکینڈلز سے آشنائی ہوتی ہے، کہیں قتل و غارت گری کے واقعات عام آدمی کے دل کو لرزا کے رکھ دیتے ہیں۔ 

اس common man کو کبھی گیس کے مہنگا ہو جانے کی خبر مل جاتی ہے تو کبھی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کی وعید سنا دی جاتی ہے اور کبھی پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلہ میں value کمی کی خبر دے دی جاتی ہے، کبھی خزانے کے خالی ہو جانے کی خبر دے دی جاتی ہے اور کبھی وطنِ عزیز کے دیوالیہ ہو جانے کے خدشات کا اظہار کر دیا جاتا ہے۔ 

عام آدمی جب وطنِ عزیز کے مسائل پر غور کرتا ہے تو غور ہی کرتا چلا جاتا ہے اور اسے اس حقیقت سے آشنائی نہیں ہو پاتی کہ ان تمام کے تمام مسائل کا حل کیسے ہو گا؟ کب ہوگا؟ اور کون کرے گا؟ عام آدمی "عام آدمی" سے ان مسائل کے حل کا تصّور نہیں کر سکتا کیونکہ عام آدمیوں کی "اکثریت" تو وطنِ عزیز کے مسائل کو "شعوری" طور پر جانتی ہے اور نہ جاننے کی کوشش ہی کرتی ہے جبکہ وطنِ عزیز میں ہمارے اربابِ اختیار کچھ اس قسم کے روائتی اندازِ حکمرانی کے قائل ہیں کہ جن کے مُتعلق ہمارے قومی شاعر علّامہ مُحَّمد اقبالؒ کچھ یوں فرماتے ہیں کہ:۔

کوئی کارواں سے ٹُوٹا کوئی بَدگُماں حَرم سے

کہ اَمیرِ کارواں میں نہیں خُوئے دِل نوازی

وطنِ عزیز میں عام آدمی کو وطنِ عزیز کے مسائل کا حل جب عام آدمیوں سے نہیں ملتا، حکومتی اداروں سے نہیں ملتا،حزبِ اِختلاف سے نہیں ملتا اور حزبِ اقتدار کے راہنماؤں سے نہیں ملتا تو پھر عام آدمی کی حالت اُس معصوم بچے کی طرح ہو جاتی ہے جس کے مُتعلق شیخ سعدیؒ اپنی ایک حکایت میں کچھ اس طرح رقمطراز ہیں کہ ایک بادشاہ سلامت بیمار ہو جاتے ہیں تو سارے ملک میں سے حکیموں اور طبیبوں کو علاج کے لیے بُلایا جاتا ہے اورتمام ڈاکٹرز کا مُتفقہ فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ بادشاہ سلامت کی صحت یابی کے لیے کسی ایسے شخص کا پِتَّہ نکال کر کھلایا جائے جو خاص قسم کی "خصوصیات" کا حامل ہو۔ بادشاہ سلامت کی خوش قسمتی تھی کہ ایک کسان کے بیٹے میں مطلُوبہ خصوصیات پائی جاتی تھیں، بچے کے والدین کو مال و دولت سے نواز کر اُن کی رضامندی حاصل کر لی گئی اور بادشاہ سلامت کی صحت کی خاطر قاضی نے اس معصوم بچے کو ذبح کرنے کا پروانہ جاری کر دیا، جب بادشاہ سلامت کی موجودگی میں بچے کو ذبح کیا جانے لگا تو اُس بچے نے آسمان کی طرف نظریں اُٹھائیں اور بے ساختہ مُسکرانے لگا اور جب بادشاہ سلامت نے بچے سے مُسکرانے کی وجہ پوچھی تو اس معصوم سی جان نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت!!! میں آسمان کی طرف مُنہ کرکے اس لیے مُسکرایا ہوں کہ ایک معصوم بچہ اپنے والدین سے رحم کی اُمید رکھ سکتا ہےجبکہ میرے والدین پیسے کے لالچ میں آکر اپنی ہی اولاد کو ذبح کروا دینے کے لیے تیار ہو گئے ہیں،اور دوسرے نمبر پر وہ معصوم بچہ قاضی سے رحم اور انصاف کی اُمید رکھ سکتا ہے لیکن قاضی نے بھی میرے ساتھ "عدل و انصاف" کا مُعاملہ کرنے کی بجائے بادشاہ سلامت کی صحت کی خاطر مجھے ذبح کر دینے کا حُکمنامہ جاری کر دیا ہے۔اب ایسی "صورتِ احوال" میں مُجھے صرف خُدائے بزرگ و برتر سے ہی انصاف کی اُمید ہو سکتی ہے جبکہ آپ کی سلطنت میں مُجھے تو کسی سے بھی انصاف کی توقع نہیں ہے جب بادشاہ سلامت نے اس معصوم بچے کی بات کو سنا تو اُس کے دل میں خدائے بزرگ و برتر نے رحم پیدا کر دیا اور بادشاہ سلامت نے اس معصوم بچے کو روتے ہوئے آزاد کر دینے کا حُکم کچھ یوں دیا کہ "مُجھے ایسی صحت مند زندگی کی ضرورت نہیں ہے جو ایک معصوم بچے کی جان لے کر ملے" شیخ سعدیؒ لکھتے ہیں کہ بچے کو آزاد کرنے کے بعد بادشاہ سلامت خود بھی خُدائے بزرگ و برتر کی کرم نوازی سے جلد ہی صحت یاب ہو گئے۔

وطنِ عزیز میں "عام آدمی " کے لیے بے شمار مسائل کا حل بھی ہمیں شائید نہ حزبِ اختلاف سے، نہ حزبِ اقتدار سے، نہ مُقتدر اداروں سے اور نہ  ہی انتطامیہ سے مل سکے اور ہو سکتا ہے کہ ہمارے پاک وطن میں ہمارے مسائل کے حل کرنے میں ہماری عدلیہ بھی بے بس ہی رہے اور پھر ہمارے ملک کے "عام آدمی " کو بھی آسمان کی طرف اپنا مُنہ اُٹھا کے، اپنے ہاتھ اُٹھا کے اُس معصوم بچے کی طرح خُدائے بزرگ و برتر سے اپنے وطن میں موجود مسائل کے حل، ملک میں امن و امان کے قیام، ملک میں عدل و انصاف کے رواج، ملک میں ہمدردی و بھائی چارے کے ماحول کو "عام" کرنے کے لیے اذانیں دینا پڑیں،اور دُعائیں کرنا پڑیں کیونکہ خُدائے بزرگ و برتر تو اپنے بندوں سے 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والی "رَحیم و کریم ذات " ہے اور وہ ذات اپنے بندوں سے پیار بھی کرتی ہے اور عدل بھی کرتی ہے۔فی امانِ اللہ !





ہفتہ، 19 ستمبر، 2020

اَخلا قِ کریمہ

 خُدائے بزرگ  وبرتر نے ہم انسانوں کے مٹی سے بنائے گئے  پُتلے  میں اپنی طرف سے روح کو ہمارے جسموں میں داخل کیا تو ہمیں زندگی ایسی ا علٰی ترین نعمت سے نواز دیا اور ہمارے جسم و جان کی شکل و شباہت نہایت ہی خوبصورت سانچے میں ڈھالی،ہمیں دنیاوی مُعاملات کو نمٹانے کے لیے ہاتھ پاؤں عطا کیے،دلکش مناظر کو enjoy کرنے کے لیے بینائی عطا کی،غور و فکر اور فیصلہ سازی کے لیے دماغ عطا کیا، اور ہمیں اس مادّی دنیا میں حیاتِ مُستعار گزارنے کے لیے ہمارے جسم و جان کی خوراک کا بندوبست بھی کر دیا۔

خُدائے بزرگ وبرتر نے ہمارے جسم کو مٹی سے بنایا اور جسم کی نشو و نُما اور تحریک کی خاطر اس جسم کے لیے حاصل ہونے والی تمام کی تمام خوراک ہمیں اسی مٹی سے ہی حاصل ہوتی ہے اور ہمارے دماغ کی خوراک"علم" کی صورت میں اِقراء بِااِسمِ رَبِّکَ الّٰذِی ایسے کلمہ سے پہلی وحی کا آغاز کرتے ہوئے پہنچا دی اور ہماری روح کی غذا اپنے ذکر، فکر اور قرآنی تعلیمات کی صورت میں قیامت تک کے لیے محفوظ کر دی نیز ان تعلیمات کی حفاظت کی ذمّہ داری بھی اللہ نے اپنے ذمّہ لے لی۔

ہم اکثر اوقات ایسی سُستی و لا پرواہی کے مُرتکب ہو جاتے ہیں کہ اپنے جسم کی خوراک کا بالخصوص دھیان رکھتے ہیں لیکن اپنے دماغ کی خوراک "علم" کے حصول سے روگردانی کر جاتے ہیں اور اس سے بھی بڑی کوتاہی ہم سے یہ ہو جایا کرتی ہے کہ اپنی روح کی خوراک"ذکر و فکرِ خُداوندی و قُرآنی تعلیمات" سے بے خبر رہ جاتے ہیں

ہماری یہی سُستی و کاہلی اس مُعاشرتی دنیا میں،مُعاشی میدان میں، سماجی اجتماع میں طرح طرح کے بگاڑ کا سبب بنا کرتی ہے کیونکہ ہمارے جسم اور دماغ میں آنے والی تبدیلیاں، ترقّیاں اور بہتریاں ہماری روح کے صحت مند ہونے میں پوشیدہ ہیں ہماری ہر حرکت، ہمارا ہر عمل، ہمارا ہر قول، ہمارا ہر فِعل، ہماری ہر جُنبش اور ہماری ہر  تحریک ہماری روح کے مرہونِ منت ہوا کرتی ہے لہٰذا ہمیں اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی روح کی خوراک کا خُدائے بزرگ و برتر کے احکامات کے مطابق بند و بست کرتے رہنا ہو گا اور اپنی روحوں کی بالیدگی و اطمینان کی خاطر ہمیں اخلاقِ کریمہ کو جاننے اور ان پر عمل کرنے کے لیے کوشاں و سرگرداں رہنا ہو گا لیکن افسوسناک اَمر کچھ یوں ہے کہ دورِ حاضر میں ہم میں سے"اکثر احباب" اخلاقِ کریمہ کی بجائے اخلاقِ رذیلہ پر عمل کرتے رہنے پر مُصِّر ہیں حالانکہ ہمیں اس حقیقت سے آگاہی ہونی چاہیے کہ اگر ہم کسی کا مال لوٹیں گے تو یقینََا ہماری روح کو تکلیف ہو گی، اپنے بھائیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالیں گے تو یقینََا ہماری روح تڑپے گی، کسی کو دھوکہ دیں گے تو یقینََا ہماری روح بے چین ہو گی، اپنے والدین کی دل آزاری کریں گے تو یقینََا روح بے کَل ہو گی، نا انصافی کے مُرتکب ہونگے تو یقینََا ہماری روح بے قرار ہو گی، جُھوٹ بولنے کے رسّیا ہونگے تو یقینََا ہماری روح کی بے چینی میں اضافہ ہو گا، وعدہ خلافی کریں گے تو یقینََا ہماری روح کی بے تابی بڑھے گی اور اخلاقِ رذیلہ یقینََا یقینََا ہماری روحوں کی کمزوری و نقاہت کا سبب بنتے چلے جاتے ہیں جبکہ ہمارے آقاحضرت مُحمَّد ﷺ کا فرمانِ مبارک تو یوں ہے کہ:۔

"آدھا ایمان عبادات اور آدھا ایمان اخلاقیات میں ہے"

ہماری عبادات میں سے ہماری نمازیں ہمیں اطاعتِ امیر و مُساوات کا درس دیتی ہیں، ہمارے روزے ہمیں صبر و استقامت اور خُدائے بزرگ و برتر کی اطاعت کا پیغام دیتے ہیں، ہمارا حج ہمیں کائناتی بھائی چارے کا سبق دیتا ہے، ہمارے صدقات کی ادائیگی کے عوامل ہمیں ضرورت مندوں اورحاجت مندوں کے ساتھ ہمدردی و ایثار ایسے جذبات پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں اور ہمارا جہاد کے لیے نکلنے کا عمل ہمیں اپنے وطن کی مٹی سے چاہت کے اظہار کا پیغام دیتا ہے۔

ہماری عبادات ہمارے اخلاقِ کریمہ کواستحکام بخشتی ہیں، استقلال عطا کرتی ہیں اور یوں ہمارے اخلاقیات کریمہ ہماری زندگی کا لازمی حِصّہ بن جاتے ہیں۔ہماری عبادات ہمارے خُدا تعالٰی نے ہمارے آقا حضرت مُحمَّد ﷺ کے ذریعے ہم پر اُتاری ہیں تاکہ اخلاقِ کریمہ کو اپنی عادت بنانے کی مشق "تا حیات" جاری و ساری رہے، اپنے مُعاشرہ میں انتشار و بگاڑ، بے چینی و بد امنی، دُشمنی و عناد، حرص و لالچ، بُغض و کینہ اور حسد و تعصّب کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اخلاقِ کریمہ پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اور خُدائے بزرگ و برتر نے ہم اہلِ ایمان کو  سورہ حَجرات میں مُدلّل انداز میں مُخاطب کرتے ہوئے اخلاقِ کریمہ کے تمام اصول و ضوابط عطا کر دیئے ہیں ۔ خُدائے بزرگ و برتر نے ہم اہلِ ایمان کو حُکم دیا ہے کہ اگر دو اہلِ ایمان میں دُشمنی ہو جائے تو اُن میں صُلح کروا دیا کرو،اُن میں سے زیادتی کرنے والے کے ساتھ لڑو، صلح کروانے سے امن پیدا ہوتا ہے،عدل کرتے ہوئے صلح کروائیں اور آپس میں بٹھا دیں،اللہ تعالٰی عدل کرنے والے کو پسند کرتا ہے،مُسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں،تُم اپنے بھائی کی دُنیا میں پردہ پوشی کرو گے تو اللہ تعالٰی تُمھاری قیامت کے روز پردہ پوشی کرے گا، اُسے ظلم سے بچاؤ، کسی کا مذاق نہ اُڑایا کرو، کسی کو حقیر نہ جانو، ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ، کسی کو بُرے القاب سے نہ پُکارو،غلطی ہو گئی تو تذکرہ نہ کرو، چُغلی نہ کرو، بد گمانی سے بچو، جاسوسی نہ کرو، ٹوہ نہ لو اور غیبت نہ کرو۔

خُدائے بزرگ و برتر نے ہم سب اہلِ ایمان کو ایسے شاندار ضوابطِ حیات عطا کر دیے ہیں کہ جو ہمارے لیے، ہمارے مُعاشرے کے لیے، ہمارے سماج کے لیے، ہماری برادری کے لیے، ہمارے خاندان کے لیے اور ہمارے خاندان کے ہر ہر فرد کے لیے امن کا سبب بنتے ہیں، بھائی چارہ پیدا کرتے ہیں، ہمدردی کے جذبات کو اُجاگر کرتے ہیں، عزتِّ نفس کی بحالی کا ماحول پیدا کرتے ہیں، عدل کا ماحول پیدا کرتے ہیں، مُساوات پر مبنی مُعاشرتی نظام فراہم کرتے ہیں اور انصاف پر مبنی سوسائٹی کے قیام کا سبب بن جایا کرتے ہیں

ہمارے آقا حضرت مُحمَّد ﷺ نے اپنی تمام حیاتِ مُبارکہ میں خُدائے بزرگ و برتر کے عطا کردہ قوانین و ضوابط پر خود بھی عمل کیا اور آپ ﷺ کے صحابہِ اکرام    رضی اللہ تعالٰی عَنھُم نے بھی ایسے ہی "اعلٰی اخلاقیات" کی مثالیں پیش کیں کہ جِن میں "جامعیت" کی خصوصیت پائی جاتی ہے اوردُنیا کی ہر قوم، ہر نسل، ہر حاکم، ہر محکوم،  اور ہر امیر و غریب ان سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور ایسے ہی اخلاقیات کی مثالیں دیں جن میں "تفصیلات" پائی جاتی ہے اوران میں انسانی دُکھ، سُکھ، غمی،خوشی، دُشمنی، دوستی، نفرت و مُحبّت اور ہر طرح کے بدلتے ہوئے حالات کے مُطابق راہنمائی مل جاتی ہے اور ان اخلاقیات میں ہمیں "دائمیت" کا پہلو بھی ملتا ہے کیونکہ یہ اخلاق صرف آپ ﷺ اور صحابہِ اکرام  رضی اللہ تعالٰی عَنھُم  کے زمانے کے لیے مخصوص نہیں بلکہ قیامت تک  آنے والے انسانوں کے لیے ہیں اسکے علاوہ ان اخلاقِ کریمہ میں"عملیّت" کا پہلوموجود  ہے اورہرانسان ان پر آسانی سے عمل کر سکتا ہے،خُدائے بزرگ و برتر ہم سب اہلِ  ایمان کو اخلاقِ کریمہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے! آمین!


انسانی کردار کی تشکیل

خُدائے بزرگ و برتر نے اس جہانِ فانی میں حضرتِ انسان کو تخلیق کیا ہے اور ہر انسان کو یہاں اپنی زندگی کے "گِنے چُنے " دن گزار کے &qu...